ورنہ لات پڑتی رہے گی !
اتواریہ : شکیل رشید
جمعہ کے روز سے میرے تصور میں رہ رہ کر دہلی میں نمازیوں پر لات اور گھونسے چلانے والا ویڈیو ، خبر اور تصاویر گھومتی رہی ہیں ۔ اور مَیں ہی کیا اس ملک کے اور بیرون ممالک کے مسلمان بھی ، ایک پولیس اہلکار کے ذریعے سجدے میں پڑے نمازیوں پر بوٹ سمیت لات برسانے ، اور گھونسے مارنے کی ویڈیو دیکھ کر بے چین ہو اٹھے ہوں گے ۔ شاید لفظ بے چین درست نہیں ہے ، یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہکا بکا رہ گیے ہوں گے ، اور سوچ میں پڑ گیے ہوں گے کہ کیا اب اُن کی اس ملک میں یہ اوقات رہ گئی ہے کہ ایک پولیس اہلکار اپنے بھاری بوٹ کے ساتھ ان پر لات چلائے ، اور اس کی سزا بس معطلی ہو ! اس ملک میں 2014 کے بعد بلاشبہ حالات بدلے ہیں ، بے شک فرقہ پرستی میں بھاری اضافہ ہوا ہے اور ایسے لوگ جنہیں پہلے سیکولر اور لبرل جانا جاتا تھا یرقانی رنگ میں رنگ گیے ہیں ۔ بہت کچھ ہوا ہے ، مسلمانوں پر غیرشرعی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں ، مار پیٹ اور ماب لنچنگ وغیرہ وغیرہ ، لیکن دہلی میں جو ہوا ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ! یہ تو ہو رہا ہے کہ ملک بھر میں اکیلے اور نہتے مسلمانوں کو گھیر کر ان سے جئے شری رام کا نعرہ لگوایا جا رہا ہے ، لیکن کسی نماز پڑھتے ہوئے شخص پر کوئی خاکی وردی پوش لات اور گھونسے چلائے ، ایسا میرے سُننے میں نہیں آیا ، حالانکہ پولیس سخت متعصب ہوگئی ہے ۔ کیا اس ملک کے مسلمان اور ان کے لیڈران ، اس ملک کے علماء اور مسلمان دانشوران کو دہلی کے واقعے پر کوئی بے چینی ہے ، انہیں کوئی احساس ہے کہ یہ جو ہوا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس ملک کے مسلمانوں کو اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے اٹھنا ہوگا ، لڑنا ہوگا ، آگے بڑھ کر اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے ، بصورت دیگر ان کے کولہوں پر بھاری بوٹوں والے لات معمول کا حصہ بن جائیں گے ، اور پھر جب وہ لات گھونسوں پر لیے جائیں گے تو ایک دنیا اُن پر ہنسے گی اور لاتیں پڑتی رہیں گی ۔ اگر جمعہ کی نماز کے لیے تمہارے پاس مسجد نہیں ہے تو اوروں کی طرح یہ ملک تمہیں بھی یہ حق دیتا ہے کہ تم سڑک پر نماز پڑھو ۔ جب دھارمک مقاصد کے لیے اوروں کو سڑکوں ، گلیوں اور محلوں کے استعمال کی اجازت ہے ، تو مسلمانوں کو کیوں نہیں ؟ اگر اس لیے ان کو اجازت نہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو یہ انتہا درجہ کی فرقہ پرستی اور نسل پرستی ہے ۔ حقوق کے حصول کے لیے لڑنے کا مطلب جنگ نہیں ہے ، نہ جہاد ہے ، اس کا مطلب اپنے حقوق کی بِنا رُکے اور جھکے مانگ ہے ، مسلسل آواز کا اٹھانا ہے ۔ آواز بند ہوئی تو سمجھ لیں سانس بھی بند ہوجائے گی ، لہٰذا اپنی زندگی کا ثبوت دیں اور بالکل صبر سے اور امن قائم رکھتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں ۔
__________________
استاد کا مشاعرہ ایک ڈیجیٹل روداد
انشائیہ منصور اکبر
استاد بیکل دہلوی گزشتہ تین دہائیوں سے ہر سال تواتر سے آل انڈیا مشاعرہ منعقد کروارہے ہیں آج کا مشاعرہ أنہیں چوتھی دہائی میں لے جارہا ہے استاد کی طبعیت میں تخلص کی طرح بے چینی رہتی ہے ایک منٹ میں چار نشیشتں تبدیل کرتےہیں وزن بھری جوانی میں دو درجن کلوتھا۔ اب اس پیرانہ سالی میں ممکن ہے انہیں کسی کیمیا گر یا سونار کے ترازو میں تولنا پڑے۔ قد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی انھیں ایک ڈریس تحفہ دے تو سال بھر کے تہوار اسی میں بسر ہوجاتے ہیں۔مائک اسٹیج کے نیچے رکھو تب مائک ان کے نا دیکھائی دینے والے چہرے کے برابر ہوتا تھا
۔ایک ادبی انجمن کے بانی و صدر تھے خیر سے اس انجمن میں انکے علاوہ دیگر ممبران میں کوئی شاعر نہیں تھا۔ ۔اس ادبی انجمن کے اراکین میں بیشتر تعداد چاۓوالوں پان دکان کیلےپھلی والوں اور نئے امیر ڈونرس کی تھی۔ ۔استاد کا مشاعرہ ملک گیر و کائناتی شہرت پاتا تھا یعنی اس مشاعرے پر انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات بھی لعنت بھیجاکرتی تھیں۔ تشہیر کے لۓ بلیک بورڈس کے علاوہ سٹوریوں کے بورڑس پر تک اطلاع تحریک کی جاتی تھی۔
مشہور شراب خانوں میں مئے نوش قاصد بھی کنونینگ کے لئے روانہ جاتے تھے۔
ہر وہ جگہ جہاں عقل و خرد کا فقدان پایا جاتا وہاں خاص طور پر اطلاع دی جاتی تھی۔ شب گزاری کیلئے مشہور چاۓ خانوں کے ریٹ بورڑ پر بھی آلووڑا کے نیچے مشاعرہ کی تفصیلات درج کی جاتی تھی۔جس سے لگتا تھا کہ اس تحریر کا عنوان ہے گرما گرم الو وڑا مشاعرہ شروع ہی ہونے والا تھا استاد بیکل بھنورے کی طرح کبھی اسٹیج کبھی سامعین اور کبھی منتظم و مہمان خانوں تک پھرتے جارہے تھے۔۔
شاعروں کی امد کا سلسلہ ہو چکا تھا۔ مائک پر ایک نو عمر طالب علم اپنی توتلی زبان میں مچھلی جل کی رانی ہے جیون اسکا پانی ہے پڑھ رہا تھا۔۔ ناظم مشاعرہ کا یہ پہلا مشاعرہ تھا جس نے اس بچے کو درمیان میں چپ کراکے کانپتے ہاتھوں سے مائک سنبھالا قرآت کے بعد اغراض و مقاصد بیان ہوۓ۔جدید طرز پر مترنم نعت گوئی کرنے والے با ریش نوجوان شاعر کو پیش کیا گیا پہلے تو اس نے با آواز بلند درور کی پڑھنے کی اپیل کی پھر گویا ہوا نذرانہ دینے والوں سے گزارش ہیکہ اگر اپ کے پاس نقد رقم نہ ہو تو مائک کے نیچے لٹکائے گئے بار کوڈ پر فون پے کے ذریعے بھی سینڈ کر سکتے ہیں
نعت پیشی کے بعد غزل کا پہلا شاعر وارد ہوۓ آزادی مل جانے کے بعد بھی انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا
روایات کے مطابق اسرائیل اور مودی سرکار کے خلاف تنقیدی اشعار پڑھے اور بیٹھ گئے۔اسٹیج پر شور کرتے مہمانوں میں بدعنوان سیاسی نمائندوں اور سمیت بیشتر چہرے ایسے تھے جن کی خوبصورت تصویریں شہر کے پولیس تھانوں میں بڑے اہتمام سے اویزاں رہتی ہیں۔ایک موٹے تاشے مہمان نے ناظم سے کہا شاعرہ صنم ناز کو بلاواؤ۔ ناظم نے مائک چھوڑ کر اس کے مہمان کے کان میں کہا صنم ناز صاحبہ اپ کے بازو میں بیٹھی ہیں دراصل اج وہ اج عجلت کے سبب بغیر میک اپ کے اگئی ہیں۔
دوسرا شاعر پیش ہوا جس نے بڑی آفاقی غزل پیش کی سامعین میں بیٹھے ایک حقیقی شاعر نے کہا تمہارے استاد نے غزل اچھی دی ہے تم تھوڑا تلفظ میں چوک گئے سامعین میں بیشتر افراد ہوٹل کے پاکڑوں گھروں کی بالائی منزلوں اور اسٹیج کے قریب موبائل دیکھتے ہوئے بیٹھے تھے جنہیں راہ راست پر لانے کے لیے ناظم نے موجودہ دور میں ہونے والے مشاعروں کی خلاق اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ایک خوبصورت شاعرہ کو پیش کیا میک اپ کے باعث اس کی انکھیں ناک اور کان کہاں تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا جس نے فارمنگ والی کوئل جیسی اواز میں شاید کچھ ہی اپنی غزلیں سنائی اس کے بعد والےشاعر نے کمال کر دی کافی دیر تک غزلیں پڑھتا رہا سامعین نے ہوٹنگ شروع کردی تب کہنے لگا دوستضوں معاف کرنا میرے ہاتھ میں گھڑی نہیں تھی اس لیے وقت کا اندازہ نہیں ہو سکا صدر محترم نے ہانک لگائی پیچھے کیلنڈر لٹک رہا ہے وہ تو دیکھ لیا ہوتا۔
اب باری تھی صنم ناز کی محترمہ. کی ایک ہی غزل میں کئی بحور نظر آئیں اوزان تو طوطے کی طرح اڑے جا رہے تھے اس کی آواز سن کر سارے نوجوان چلائے بیٹھ جاؤ خالہ بیٹھ جاؤ خالہ بنا میک اپ کے یہ درگت - - - -ہاۓ۔۔۔
استاد بیکل مائک کی طرف بڑھے مگر دفعتاً وائر میں پاؤں پھنسنے سے بری طرح لڑکھڑائے مگر خیر ہوئی گرنے سے بچ گئے پھر مائک سنبھال کر کہنے لگے دوستو آج کے صاحب اعزاز کا استقبال کیا جا رہا ہے پھر صاحب اعزاز کو 20 کیمروں کی سلامی کے ساتھ پھولوں سے لاد دیا گیا صاحب اعزاز کا کوئی کارنامہ نہیں تھا بس اتنی لیاقت تھی کہ مشاعرے کے تمام اخراجات موصوف نے اپنی جیب خاص سے قسط وار ادا کردیاکرتے تھے
صدر محترم الیکشن کیلئے امید سے تھے اس لیے ہر دوسرے تیسرے شعر پر آن کیمرہ سو پچاس کا نذرانہ بھی دےرہے تھے کچھ شعراء نے اچھے شعر سنائے شاعری یاد آگی
ایک شاعر جو کئی کتابوں کے خالق اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز تھے ہر صنف پہ طبع آزمائی کرتے تھے آج پہلی بار ھزل سنا رہے تھے بجائے ہنسے کے سامعین میں صنفِ ماتم بچھ گئی ایک نے دیواروں پر گٹکے کی پیک تھوکنے کے بعد کہا
"کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد"
مشاعرہ آخری دہلیز پہ تھا سامعین کی تعداد رفو چکر ہوچکی تھی - بحالت مجبوری فٹ پاتھ پہ سونے والے چند راتوں کے رسا موجود تھے سامعین میں بیٹھے ایک باتونی شخص نے بازو میں بیٹھے بزرگ سے پوچھا "چاچا مشاعرہ کیسا لگ رہا ہے" " بزرگ بےزاری سے کہا "مجھے شاعری وائری سمجھتی نہیں، بہوویں ستاتی ہیں اس لیے دو چار گھنٹے آرام سے بیٹھنے آیا ہوں
مشاعرہ ختم ہونے والا ہی تھا کہ وہ صاحب آگئے جن کے ذمہ شمع فروزی تھی - ناظم نے جھٹ نام پکارا شمع فروزی ہوئی اور مشاعرہ ختم ہوا
مائک والے نے استاد سے پوچھا
شمع فروزی آخری میں یہ پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں استاد نے غور کر کہا
ہمارے جانے کے بعد یہاں آسیب نہ بس جائیں اس لیے شمع فروزی جلتی رہے گی
مشاعرہ ختم ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ استاد کے جوتے چوری ہوچکے ہیں بے چارے ننگے پیر گھر پہنچے اور بیگم کو یہ اشعار سنائے
کل شام کسی بزم میں جوتے جو کھو گئے۔۔۔
ہم نے کہا بتائیے گھر کیسے جائیں گے
کہنے لگے کہ شعر سناتے رہو میاں گنتے نہیں بنیں گے ابھی اتنے آئیں گے
____________
💞مرشد جون ایلیا
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروت ہو
تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو
تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمہیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
کس لئے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
___________
🔴یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل : ساغرؔ صدیقی
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمید کے اسرار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جسے چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی میری دے گا ‘ ساغر ‘
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ساغر صدیقی