بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ تین روزہ سرکاری دورے پر چین میں ہیں اور ان کے اس دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ رواں برس جنوری میں چوتھی مرتبہ مسلسل بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا دوسرا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ گذشتہ مہینے دو روزہ دورے پر انڈیا بھی گئی تھیں۔
اپنے دورہِ انڈیا کے دوران انھوں نے انڈین حکومت کے ساتھ تقریباً 10 معاہدوں پر دستخط کیے تھے جس میں ٹرین ٹرانسپورٹ کا بھی ایک منصوبہ شامل تھا۔
دورہِ انڈیا کے صرف دو ہفتوں کے بعد شیخ حسینہ کے چین کے دورے کو اقتصادی اور سفارتی اعتبار سے کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے اس دورے کے دوران بنگلہ دیش کی وزیراعظم چین سے متعدد منصوبوں کی تکمیل کے لیے قرضہ حاصل کر سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ چین سالانہ بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے بھی بنگلہ دیش کی مدد کر سکتا ہے۔
گذشتہ 15 برسوں میں چین نے بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بھی بنگلہ دیش کو قرضہ یا فنڈز فراہم کیے ہیں۔
اس سے قبل چین پدما برج اور کرناپھلی ٹنل جیسے منصوبے بنانے میں بھی بنگلہ دیش کی مدد کر چکا ہے اور اب بیجنگ آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ٹیسٹا منصوبے میں بھی دلچسپی لے رہا ہے۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ چین بنگلہ دیش میں ترقیاتی منصوبوں میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے اور بیجنگ کے وہاں مفادات کیا ہیں؟
بنگلہ دیش کے سابق وزیرِ خارجہ توحید حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس تمام معاملے میں چین کا مفاد اُتنا ہی ہے جتنا بنگلہ دیش کا ہے۔ اس کے علاوہ تعزویراتی نقطہ نظر سے بھی بنگلہ دیش چین کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘
لیکن بنگلہ دیش میں اپنی موجودگی بڑھانے کے پیچھے چین کے اصل ارادے کیا ہیں؟
چینی قرضے اور سرمایہ
گذشتہ 15 برسوں میں ایک درجن سے زیادہ بڑے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ چین نے پدما برح، بانگابندھو شیخ مجیب الرحمان ٹنل اور ڈھاکہ بس ریپڈ ٹرانزٹ جیسے منصوبوں کے لیے بنگلہ دیش کو قرضے فراہم کیے ہیں۔
حالیہ دنوں میں چین ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جنھوں نے بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ قرضے دیے ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزارتِ خزانہ کے ادارے محکمہ اقتصادی تعلقات کے مطابق چین نے گذشتہ چار برسوں میں بنگلہ دیش کو تین ارب ڈالر بطور قرض دیے ہیں۔
دوسری جانب واشنگٹن میں واقع امریکن انٹرپرائز انسٹٹیوٹ کا کہنا ہے کہ چین بنگلہ دیش میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
ماضی میں بطور بنگلہ دیش کے سفیر امریکہ میں خدمات انجام دینے والے ہمایوں کبیر کہتے ہیں کہ: ’چین کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہے اور وہ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کر سکیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس اعتبار سے بنگلہ دیش ایک اچھا آپشن ہے کیونکہ بنگلہ دیش خود بھی ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرض کی تلاش میں ہے۔‘
بنگلہ دیش وہ واحد ملک نہیں جو چین سے قرضے لے رہا ہے بلکہ افریقہ سے ایشیا اور یہاں تک کہ یورپ میں بھی ایسے ممالک ہیں جو اب چین سے قرض لے رہے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک کو قرضے دینے کے مقابلے میں بنگلہ دیش کو قرض دینا چین کے لیے زیادہ سودمند ہے۔
سابق وزیرِ خارجہ توحید حسین کہتے ہیں کہ ’ایک طرف تو چین کو اپنے پیسے پر سود مل رہا ہے اور دوسری طرف ان منصوبوں پر چینی ٹھیکے دار ہی کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں چین کا اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہے۔‘
سنہ 2012 میں ورلڈ بینک نے کرپشن کے الزامات کے سبب پدما برج کے لیے اعلان کردہ فنڈز واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک چین اور بنگلہ دیش کے تعلقات گہرے ہوتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
اس کے بعد بنگلہ دیش نے پدما برج کے منصوبے کو خود مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 2014 میں ’چائنا میجر برج کمپنی‘ کو بنگلہ دیش نے اس پُل کے ڈھانچے کو تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا تھا۔
اس کے صرف دو برس بعد 2016 میں چین صدر شی جن پنگ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انھوں نے کہا تھا کہ چین دو درجن سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے بنگلہ دیش کو 21 ارب امریکی ڈالر بطور قرض دے گا۔
بنگلہ دیش میں چینی شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع
چین صرف بنگلہ دیش کو قرض ہی نہیں دے رہا بلکہ اس کے شہریوں کو بھی بنگلہ دیش میں ملازمت کے مواقع مل رہے ہیں۔
سابق وزیرِ خارجہ توحید حسین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ: ’جن منصوبوں کے لیے چین قرضے دے رہا ہے ان منصوبوں پر کام بھی چینی ٹھیکے دار کر رہے ہیں اور یہاں ہماری ورک فورس کا ایک بڑا حصہ بن چکے ہیں۔‘
دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد 141 کروڑ کی آبادی والے ملک چین میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔
چینی حکومت کے مطابق گذشتہ برس کے وسط میں 16 سے 24 برس کی عمر کے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔
توحید حسین کہتے ہیں کہ ’ایک طرح سے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کر کے چینی حکومت اپنے بےروزگار شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔‘
بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق بنگلہ دیش میں کام کرنے والے غیرملکی افراد میں چینی شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ملک کی وزارتِ داخلہ کے مطابق بنگلہ دیش میں قانونی طور پر اس وقت چھ ہزار سے زیادہ چینی باشندے کام کر رہے ہیں۔
دوسری طرف بنگلہ دیشی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت تقریبا 700 چینی کمپنیاں بنگلہ دیش میں مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔
امریکن انٹرپرائز انسٹٹیوٹ کے مطابق گذشتہ برسوں میں بنگلہ دیش میں چینی کمپنیوں کو 23 ارب ڈالر کے متعدد ٹھیکے دیے گئے ہیں۔
توحید حسین کے مطابق ’اگر چین نے بنگلہ دیش کو قرضے نہیں دیے ہوتے تو کیا اس کے ٹھیکے دار اور شہری یہاں ترقیاتی منصوبوں پر اس طرح سے کام کر سکتے تھے؟‘
کاروباری مفادات
امریکن انٹرپرائز انسٹٹیوٹ کے مطابق بنگلہ دیش اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم سالانہ 23 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بنگلہ دیش اپنی ضروریات کی زیادہ تر چیزیں چین سے درآمد کرتا ہے۔
بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں بنگلہ دیش میں چین سے آنے والی برآمدات میں تین گُنا اضافہ ہوا ہے۔
بینک کے مطابق 2012 اور 2013 میں چین سے بنگلہ دیش درآمد کیے گئے سامان کا کُل حجم ساڑھے چھ ارب ڈالر تھا جو کہ اب 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
سابق سفیر ہمایوں کبیر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’خطے کی سطح پر برآمدات کے اعتبار سے چین کے لیے بنگلہ دیش بہت اہم ہے۔ چین کے لیے بنگلہ دیش اقتصادی اور کاروباری دونوں لحاظ سے اہم ہے۔‘
عام مصنوعات کے علاوہ بنگلہ دیش چین سے بڑی تعداد میں عسکری سامان بھی خریدتا ہے۔ سنہ 2016 میں بنگلہ دیش نے چین سے دو آبدوزیں بھی خریدی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکری سامان و ہتھیاروں کے اعتبار سے بھی بنگلہ دیش چین کے لیے اہم ہے۔
علاقائی مفادات
ماہرین کے مطابق علاقائی طور پر چین کے لیے بنگلہ دیش تعزویراتی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ توحید حسین کہتے ہیں کہ ’چین سُپر پاور بننا چاہتا ہے اور خاص طور پر وہ خلیج بنگال میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔‘
اس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی ’انڈو پیسیفک سٹریٹجی‘ ہے اور چین چاہتا ہے کہ وہ خلیج بنگال پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔
سنہ 2021 میں امریکی صدر کی جانب سے ’انڈو پیسیفک سٹریٹجی‘ پیش کی گئی تھی۔ خیال رہے دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی ’انڈو پیسیفک‘ خطے میں آباد ہے اور یہ علاقہ تجارتی لحاظ سے بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
یہ علاقہ سمندری تجارت کے حوالے سے بھی دنیا کے لیے اہم ہے۔
امریکہ میں ایلانائے یونیورسٹی سے منسلک سیاسیات کے پروفیسر علی ریاض کہتے ہیں کہ ’اگر آپ حساب لگائیں تو سنہ 2040 تک دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا 45 فیصد حصہ آپ کو اسے خطے میں نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ خطہ عالمی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بنے گا۔‘
ماہرین کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس خطے کے لیے ایک علیحدہ پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
تاہم چین نے اس معاملے میں بہت پہلے ہی پہل کردی تھی اور ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کا اعلان کردیا تھا۔
اس منصوبے کی مدد سے چین ایشیا اور یورپ کے 60 سے زیادہ ممالک تک سڑکوں اور ٹرین کے ذریعے رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ کی نئی پالسی کا مقصد ہی دیگر خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت امریکہ نے جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا کے ساتھ مل کر ایک سکیورٹی اتحاد بنایا ہے۔
سابق سفیر ہمایوں کبیر کہتے ہیں کہ ’خطے میں سکیورٹی اور اپنی سبقت بنائے رکھنے کی پالیسی کے تحت چین اپنے پڑوسیوں بشمول بنگلہ دیش اور میانمار سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔‘
چین امریکہ کی طرف سے بنائی گئی ’انڈو پیسیفک سٹریٹجی‘ کا حصہ نہیں ہے اور چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش امریکہ کی قیادت میں بننے والے اتحاد کا حصہ نہ بنے۔
مئی 2021 میں بنگلہ دیش میں چینی سفیر لی شی منگ نے کہا تھا کہ اگر بنگلہ دیش نے امریکی اتحاد میں شمولیت کی تو چین اور بنگلہ دیش کے دو طرفہ تعلقات کو ’شدید نقصان‘ پہنچ سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کے ساتھ کے تعلقات پر چین کیا کہتا ہے؟
چین کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتا ہے اور انھیں ’نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔‘
بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کے دورے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماو ننگ کا کہنا تھا کہ ’اس دورے کے دوران دونوں رہنما دوستاتہ تعلقات کو وسعت دینے، خطے اور بین الاقوامی دلچسپی کے باہمی امور پر بات چیت کریں گے۔‘
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ’نئی بلندیوں‘ تک پہنچیں گے کیسے؟
اس سوال کے جواب میں چینی دفترِ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبوں کی تکمیل کے لیے دو طرفہ تعاون بڑھائیں گے۔
گذشتہ برس اپنے ایک مضمون میں بنگلہ دیش میں چین کے سابق سفیر یاو وین نے لکھا تھا کہ ’سال 2023 وہ وقت ثابت ہوگا جب چین اور بنگلہ دیش کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبوں پر تعاون بڑھے گا۔‘
اس برس بنگلہ دیش میں بہت سے بڑے منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔ یاو وین کے مطابق بنگلہ دیش میں متعدد مزید منصوبوں پر بھی کام کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم چین میں بطور بنگلہ دیش کے سفیر خدمات سرانجام دینے والے ہمایوں کبیر کہتے ہیں کہ ’چین کیا چاہتا ہے یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے، ہماری حکومت کو اپنے مفادات کو ترجیح دینے چاہیے وہ بھی اس طرح کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔‘